جواب:
اللہ تعالی کے متعلق نامناسب خیالات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام على سید المرسلین،أما بعد!
مختصرًا یہ جان لیں کہ:یہ خیالات OCD نامی بیماری کے سبب ہیں ،تو یہ آپ کے اختیار میں نہیں، اس لیے نہ گناہ ہے نہ کفر۔ ایسے خیالات پر رنجیدہ ہونے پر نبی کریم ﷺ نے تسلی دی ہے۔ ان پر کوئی پکڑ نہیں جب تک آپ خود ان خیالات کو لاکر ان پر غور نہ کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور کرنے کے بجائے اس کی صفات میں غور کریں۔ البتہ اگر کوئی جان بوجھ کر ایسے خیالات سوچے یا آنے کے بعد اس میں غور کرکے انہیں اپنے ذہن میں جان بوجھ کر بٹھائے تو یہ سخت گناہ، اور اگر ان باتو ں پر خدانخواستہ ایک لمحہ کے لئے بھی یقین کرنے لگےتو ایمان کے ضائع ہونے کا سبب ہے۔ لیکن آپ کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، کیونکہ شریعت محمدی ﷺ میں اللہ پاک نے بڑی رخصتیں اور آسانیاں رکھی ہیں۔ تفصیلات درج ذیل ہیں، ضرور پڑھیں:
مکمل جواب:
آپ کے دل میں آنے والے یہ خیالات درحقیقت "وساوس” (OCD) ہیں، جو آپ کے اختیار کے بغیر آتے ہیں۔ یہ خیالات آپ کی مرضی کے خلاف ہیں، آپ انہیں غلط سمجھتی ہیں، ان سے نفرت کرتی ہیں اور ان پر توبہ کرتی ہیں۔ اس صورت میں یہ خیالات نہ کفر ہیں نہ گناہ۔
إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَتَكَلَّمْ
ترجمہ:”بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے ان خیالات کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں آتے ہیں، بشرطیکہ وہ ان پر عمل نہ کریں یا انہیں زبان پر نہ لائیں۔” (صحیح بخاری: 5269، صحیح مسلم: 127)
بلکہ ان خیالات پر پریشانی اور انہیں رد کرنا ایمان کی علامت ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے:قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَجِدُ أَحَدُنَا مَا تَحَادِثُ بِهِ نَفْسُهُ، قَالَ: وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ
ترجمہ:”صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنے دل میں (برے) خیالات پاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم واقعی ایسا محسوس کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ایمان کی خالص علامت ہے۔” (صحیح مسلم: 132)
اللہ تعالی کے بارے میں نامناسب یا گناہ کے خیالات کی ممکنہ وجہ:
اس کی ممکنہ طور پر ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انسان اللہ کی ذات میں غور کرنے لگتا ہو یہ سمجھ کر کہ یہ تو اچھا ہے کہ میں اللہ کو سوچ رہا ہوں لیکن حقیقت میں شیطان اسے ایک خفیہ راستے سے اللہ کے بارے میں شکوک و شبہات اور باطل عقائد پر خاموشی سے دھکیل رہا ہوتا ہے کیونکہ ہمیں اللہ کی ذات کے بارے میں سوچنے کے بجائے اللہ کی صفات اور اللہ کی پیدا کردہ اشیاء یعنی کائنات اور نعمتوں میں غور کرنے کا حکم ہے۔
ذات باری تعالیٰ کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بارے میں اسلام کی تعلیمات:
اللہ تعالیٰ کی ذات اور حقیقت کے بارے میں غور و فکر سے منع فرمایا گیا ہے، کیونکہ انسانی عقل اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں مخلوق سے بالکل مختلف ہے۔ اُس کا کوئی جسم نہیں۔ اُس جیسا کوئی نہیں۔ اُس کی حقیقت کا احاطہ ممکن نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
ترجمہ:”اس جیسا کوئی نہیں، اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔” (سورۃ الشوریٰ: 11)
وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا“ اور وہ (انسان) اُس کا علم میں احاطہ نہیں کر سکتے۔ (اس کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے)” (سورۃ طہٰ: 110)
اسی لیے اللہ نے اپنا تعارف اپنی صفات کے ذریعے کرایا:
الرحمان-بڑا مہربان، رحیم-بے حد رحم کرنے والا، قدیر-ہر چیز کو کرسکنے والا، علیم-ذرہ ذرہ سے واقف، حکیم-زبردست دانائی اور حکمت والا وغیرہ۔
اللہ کی ذات میں غور و فکر کرنے سے ممانعت:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَفَكَّرُوا فِي اللَّهِ
ترجمہ:”اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرو، اللہ کی ذات میں غور و فکر نہ کرو۔” (الطبرانی فی المعجم الأوسط: 8672)
لہٰذا ذات باری تعالی میں غور کرنے اور اس طرف دھیان دینے کے بجائے اللہ کی صفات اور اللہ کی قدرت و خلقت کے عجائبات اور مخلوقات میں غور و فکر کریں۔
جان بوجھ کر اللہ کے بارے میں نازیبا/غیر مناسب خیالات لانا اور ان پر یقین کرلینا یا اللہ کے بارے میں کوئی شک کرنا:
اگر کوئی شخص اپنی مرضی، یقین اور عقیدے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی گستاخانہ بات کرے یا مانے، یعنی وہ اللہ کے بارے میں کچھ نامناسب بات زبان سے کہہ دے یا دل سے مان لے یا اللہ کی ذات و صفات میں شک کرے تو یہ کفر ہے۔ ایسے شخص کے تمام اعمال -نماز، روزے، زکوۃ، حج، وغیرہ – ضائع ہوجائیں گے اور اس کا نکاح بھی ختم ہوجائے گا اور اگر بغیر توبہ کیے اور دوبارہ سچے دل سے ایمان لائے مرگیا تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
لیکن آپ کا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ آپ ان خیالات کو مکمل طور پر رد کرتی ہیں اور ان پر پریشان ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ OCD میں بار بار خیالات آنے سے ایسا لگتا ہے کہ میں جان بوجھ کر ایسا سوچ رہا ہوں حالآنکہ یہ خیال خود بھی اسی بیماری کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
لہٰذا آپ اس کو ذہن پر سوار نہ ہونے دیں آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ خیال رہے کہ ان خیالات کے آنے کے بعد ان میں غور و فکر ہرگز نہ کریں بلکہ اس وساوس کا علاج کریں۔
وسوسوں (گناہ کے برے اور گندے خیالات) کا علاج:
پاکی کا اہتمام رکھیں۔ کوئی گندگی جسم کو لگی نہ رہ جائے، خصوصا بیت الخلاء استعمال کرنے کے بعد۔ غسل واجب ہونے پے خواہ مخواہ سستی کرکے ناپاک نہ رہیں۔ شیطان ناپاک لوگوں کو آسانی سے نشانہ بناتے ہیں۔
باوضو رہیں۔ شیطانی حملوں سے حفاظت رہے گی۔
اعوذ باللہ پڑھیں: جب بھی وسوسہ آئے، فوراً أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ پڑھیں اور اس خیال کو نظر انداز کر دیں۔
دم کریں: صبح و شام سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور آیت الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں۔
خود کو مشغول رکھیں، فارغ نہ بیٹھیں۔ کسی نیک یا جائز کام میں مصروف رہیں۔ کیونکہ اگر آپ خود صحیح کام میں نہیں لگائیں گے تو نفس و شیطان آپ کو غلط کام میں لگا دیں گے۔ آپ لیٹے لیٹے یا بیٹھے بیٹھے کوئی آچھی/جائز سوچ میں بھی مصروف رہ سکتے ہیں۔
جسمانی علاج بھی کریں: اگر وسوسے شدید ہوں تو کسی ماہر ڈاکٹر یا طبیب سے علاج کروانا بھی ضروی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بیماریوں کا علاج کرانے کی ترغیب دی ہے۔