جواب:
مختصرًا یہ جان لیں کہ: انسان ہمیشہ اپنی دعا کو فوری قبول دیکھنا چاہتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور رحمت سے وہی فیصلہ کرتا ہے جو بندے کے لیے بہتر ہو۔ کبھی دعا دنیا میں پوری ہو جاتی ہے، کبھی اس کے بدلے مصیبت ٹل جاتی ہے، اور کبھی وہ آخرت کے لیے محفوظ کر لی جاتی ہے جس پر بندہ قیامت کے دن کہے گا: کاش! کوئی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی۔ اسی دوران صبر کا دامن تھامنا سب سے بڑی نعمت ہے، اور دعا کی قبولیت کے لیے بعض مجرب اعمال بھی بیان کیے گئے ہیں۔
تفصیل کے لئے مکمل پڑھیں:
انسانی عقل و دانش محدود ہے۔ انسان اکثر اپنی خواہشات کو اپنی بہتری سمجھتا ہے۔ کبھی ہم کسی چیز کو اپنی کامیابی یا خوشی سمجھ کر اُس کے پیچھے لگ جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ جو ہماری حقیقت، حال اور مستقبل سب جانتا ہے، وہ بہتر فیصلہ کرتا ہے۔۔ لہٰذا، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان جو چیز مانگتا ہے، وہ درحقیقت اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اسے وہ چیز نہیں دیتا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ:”اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔” (سورۃ البقرہ: 216)
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی ناپسندیدہ چیز میں اس کی بھلائی اور اس کی محبوب چیز میں اس کا نقصان پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا دعا کا فوری طور پر قبول نہ ہونا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مصلحت پر مبنی فیصلہ ہوتا ہے۔
اور دعا کے نتیجہ میں وہ چیز جو ہم مانگ رہے ہیں اسی طرح نہ ملنا دعا کا در ہونا نہیں ہوتا بلکہ دعا بہت سے طریقوں سے قبول ہوسکتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا(مسند احمد: 11133)
ترجمہ:”جو بھی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ یا رشتہ داروں سے قطع تعلقی نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے: یا تو اس کی دعا کو فوری قبول کر لیتا ہے، یا اسے آخرت کے لیے محفوظ کر لیتا ہے، یا اس کے بدلے میں اس سے برائی کو دور کر دیتا ہے۔”
لہٰذا ہمیں امید کے ساتھ دعا کرتے ہوئے یہ بات بھی سمجھنی چاہیئے اور ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ دعا کی قبولیت کی سب سے فائدہ مند صورت یہ ہے کہ دعا کا اجر آخرت کے لئے محفوظ ہو جائے، کیونکہ دنیا کی ہر چیز عارضی اور ختم ہوجانے والی ہیں۔ نہ تو یہاں کی نعمتیں دائمی ہیں، نہ ہی غم ہمیشہ رہنے والا ہے لیکن آخرت کی نعمتیں دائمی اور لامحدود ہیں۔
حضرت جابر ؓ کی ایک حدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی ہوں گی ان دعاؤں کے بدلے میں جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں عطا فرمائیں گے تو بندے کی زبان سے نکلے گا: يَالَيْتَهُ لَمْ يُعَجَّلْ لَهُ شَيْئٌ مِنْ دِعَائِهِ.(كنز العمال: ص 57، جلد 2) اے کاش! میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی (اور ہر دعا کا پھل مجھے یہیں ملتا)
لہذا ہمیں ناامید بھی نہیں ہونا لیکن نہ ملنے پر بےصبری بھی نہیں دکھانی۔ تکلیف تو فطری ہے، اس کا حرج نہیں لیکن بےصبری کا اظہار اللہ کو پسند نہیں۔ ہم اس غم کے موقع کو مزید فائدہ مند بناسکتے ہیں صبر کرکے۔ ایمان والے کا امتحان یہی ہے کہ وہ اس وقت صبر کرے، بے صبری نہ دکھائے، اور خاص طور پر لوگوں کے سامنے شکوہ نہ کرے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کا چاند جیسا بیٹا اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھوں گم ہوجانے پر انہوں نے ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اسے قرآن کا حصہ بنادیا انہوں نے فرمایا تھا:
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
"میں تو اپنی پریشانی اور غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔” (سورۃ یوسف: 86)
یعنی تکلیف ہو تو اپنے رب کے سامنے دل کھول کر بیان کریں، لوگوں کے سامنے نہیں، کیونکہ لوگ تو خود اپنی ضرورتوں کے محتاج ہیں۔
ایک مجبور و لاچار انسان کی بدترین حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے مجبور و لاچار ایک دوسرے انسان کا محتاج ہوکر اس کے سامنے شکوہ شکایت کرے۔
حدیث میں بھی آیا ہے:ومن يتصبر يصبره الله، وما أعطي أحد عطاء خيرا وأوسع من الصبر.(صحیح البخاری، حدیث: 1469)
ترجمہ: "جو شخص صبر کی کوشش کرتا ہے اللہ اُسے صبر عطا فرماتا ہے، اور صبر سے بڑھ کر کوئی بہتر اور وسیع نعمت کسی کو نہیں دی گئی۔”
دعا کی قبولیت کے لیے ایک مجرب عمل:
1. عشاء کی نماز کے بعد پوری یکسوئی کے ساتھ 4 رکعت نفل حاجت کے پورا ہونے کی نیت سے پڑھیں۔
2. نماز کے بعد 313 مرتبہ آیت کریمہ (یہ دعا) پڑھیں: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (سورۃ الانبیاء: 87)
3. پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا کر اپنی حاجت پیش کریں۔
ان شاء اللہ تعالیٰ اگر آپ کی مانگی ہوئی چیز آپ کے لیے بہتر ہوئی تو ضرور عطا ہوگی، ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا یا اس دعا کا اجر آخرت میں محفوظ فرما لے گا۔
خلاصہ کلام:
دعا کی قبولیت نہ ہونا درحقیقت اللہ تعالیٰکی حکمت اور بندے کی بہتری پر مبنی ہوتا ہے۔ مومن پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ رضاے الٰہی پر راضی رہے، دعا کرتے رہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
واللہ اعلم بالصواب
(از: مولانا محمد اسد انصاری)