Facebook Instagram Whatsapp Youtube Envelope
  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • Terms & Conditions
  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • Terms & Conditions
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
Menu
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
Change A Life
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
Drop Your Question Here!
Drop Your Question Here!
کیا حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کسی اور مسلک کے فتوی پر عمل کرسکتا ہے؟
کس طرح دیکھنے اور چھونے سے عورت سے حرمت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے؟

حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کا کسی اور مسلک پر عمل کرنا

:سوال
السلام علیکم…

میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے مذہب (فقہی مسلک) میں نظر یا لمس (چھونا) شہوت کے ساتھ کا مسئلہ مختلف ہے تو کیا ایک حنفی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ صرف اسی مسئلے (یعنی شہوت سے چھونے یا دیکھنے میں) کسی دوسرے مسلک کی رائے پر عمل کرے، جبکہ اصل جماع (intercourse) کا مسئلہ ویسا ہی رہے؟

میں نے دارالتقویٰ لاہور کا فتویٰ اور ساتھ ہی مفتی توحید ندوی صاحب کا فتویٰ بھی پڑھا ہے، جن میں انہوں نے شہوت کے ساتھ چھونے کے معاملے میں دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔

براہ کرم میرے اس سوال کی وضاحت فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیراً.

:جواب
مختصرًا یہ جان لیں کہ: حنفیہ کے نزدیک شہوت سے چھونے یا اندرونی شرمگاہ دیکھنے سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے، اور اس میں انہوں نے اتنی شرائط و قیود رکھی ہیں کہ عام طور پر ان کا مکمل ہونا ہی نایاب ہے۔ لہٰذا اس مسئلے میں کسی دوسری فقہی رائے کی ضرورت نہیں، اور اگر تمام شرائط پوری بھی ہو جائیں تو وہ مشکل دراصل انسان کی اپنی غلطی اور بے احتیاطی کی وجہ سے ہوگی، نہ کہ حنفی مسلک کی سختی کے باعث۔ اس لیے سہولت یا خواہش کے تحت دوسرے مسلک کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔

:تفصیل کے لئے مکمل پڑھیں

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

واضح رہے کہ ائمہ مذاہب کا اختلاف عقائد ونظریا ت میں نہیں، بلکہ بعض فروعی عملی مسائل میں ہے ۔جبکہ ان میں سے کسی ایک کی اتباع وتقلید سہولت کے ساتھ دین پر عمل کرنے کیلیے ہے، نہ کہ خواہش نفس کیلیے ،لہٰذا جو شخص جس امام کا پیروکا ر ہے اس کو تمام مسائل میں اس کی اتباع لازم او ر ضروری ہے۔ اگر وہ اپنی خواہش کے مطابق ایک مسئلہ میں ایک امام کی اتباع کرے اور دوسرے میں دوسرے امام کی تو یہ تلفیق اور خواہش پرستی ہے۔جس کے نا جائز ہونے میں شبہ نہیں ۔البتہ عذر یا شدید ضرورت کی صورت میں اگر اپنے مسلک پر عمل کرنا دشوار ہو جائے تو دوسرے معتبر مسلک کے قول پر عمل کرنا جائز ہے، بشرطیکہ:
1. وہ مسلک معتبر ہو (یعنی ائمہ اربعہ کا ہو)۔
2. یہ عمل محض خواہشِ نفس (آسانی تلاش کرنے) کے لیے نہ ہو، بلکہ کسی ضرورت یا مشکل سے نکلنے کے لیے ہو۔
3. یہ عمل "تلفیق” (کوئی شخص ایک ہی عمل میں مختلف مسالک کے اقوال کو ایسے جوڑ دے کہ اس کا عمل تمام مسالک کے نزدیک باطل ہو جائے) کا سبب نہ بنے۔
قرآن وسنت اور فقہاءِ کرام کی عبارت سے ثابت ہوا کہ حرمتِ مصاہرت  نکاح، زنا، اور شہوت کے ساتھ چھونے اور شہوت کے ساتھ شرم گاہ کے داخلی حصے کو دیکھنےسےثابت ہوجاتی ہے،حرمتِ مصاہرت کے ان چار اسباب میں سے بعض،  ائمہ متبوعین کے درمیان متفق علیہ ہیں اور بعض مختلف فیہ ہیں:
(1) نکاحِ صحیح:اس کے بعد بالاتفاق حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔
(2) وطی:  نکاحِ صحیح کے بعد وطی سے بالاتفاق حرمت ثابت ہوجاتی ہے، نکاحِ فاسد وباطل کے بعد   وطی سے بھی بالاتفاق حرمت ثابت ہوجاتی ہے، اور زنا یعنی   نکاح کے عقد کے بغیر کسی عورت سے وطی کی تو اس سے بھی احناف اور حنابلہ کے نزدیک حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، ایک روایت مالکیہ کی بھی اسی طرح ہے، اور شوافع اور مالکیہ کے معتمد قول کے مطابق زنا سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
(3، 4)  لمس ونظر:شہوت کے ساتھ چھونے اور شہوت کے ساتھ شرم گاہ کے داخلی حصے کو دیکھنے  سے احناف  کے نزدیک حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔
گویا  عقدِ نکاح کے علاوہ دیگر اسباب کے ذریعے  حرمتِ مصاہرت کا ثبوت مجتہد فیہ مسئلہ ہے،  اب اس مجتہد فیہ مسئلہ میں کیا  احناف کے مسلک پر عمل کرنا واقعۃً  دشوار ہے ؟ یا اس پر عمل کی صورت میں عوام الناس کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور عمومِ بلوی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے؟اور کیا ضرورت اس درجہ کی شدید ہے کہ اس مسئلہ میں مذہبِ غیر پر فتوی ٰ دیا جائے؟ تو ان تمام سوالات کے جوابات سے پہلے مناسب یہ ہے کہ یہ واضح ہونا چاہیے  کہاحناف کے نزدیک  مذکورہ اسباب کے ذریعے حرمتِ مصاہرت کا ثبوت مطلقاً ہے یا اس کی کچھ شرائط بھی ہیں، اور ان تمام شرائط کی وضاحت کے بعد یہ معلوم کرنا آسان ہوگا کہ ضرورت کس حد تک ہے۔
لہذا  حرمتِ مصاہرت  کے تمام اسباب کی الگ الگ شرائط ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
1۔۔     نکاحِ صحیح یا نکاحِ فاسد وباطل کے بعد ہم بستری سے  بالاتفاق حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے  ،اس کے لیے  کچھ شرائط ہیں:
*وہ عورت جس سے صحبت کی گئی ہو وہ زندہ ہو۔
*موطوء ہ  محلِ شہوت ہو یا محلِ شہوت رہی ہو، محلِ شہوت کا مطلب یہ ہے کہ  عورت ہم بستری کے قابل  ہو اگرچہ وہ بالغ نہ ہوئی ہو، اس کی عمر کی تحدید کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ  اس کی عمر  کم ازکم نو(9) سال ہو، اور بوڑھی عورتیں  بھی اس میں داخل ہیں۔
*مرد بھی بالغ ہو یا کم ازکم مراہق ہو،راجح قول کے مطابق کم ازکم اس کی عمر بارہ (12) سال ہو۔
*وطی محلِ حرث میں ہو یعنی عورت  کی اگلی شرم گاہ میں ہو۔
2۔۔    مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
*مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔
*چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔
* شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
*شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
*عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔
*اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔
*جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔
3۔۔    نظر  یعنی دیکھنےسے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
*عورت کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کو دیکھا ہو، جسے ”فرج داخل“ اور اردو میں ”اندامِ نہانی“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اندرونی شرم گاہ کے علاوہ بدن کے کسی اور حصہ کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، اور اگر دیکھنے والی عورت ہو تو  مرد کے  مخصوص عضو (آلہ تناسل) کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اس کے علاوہ جسم کے کسی اور حصہ کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
*شہوت دیکھنے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر دیکھتےوقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
*شہوت صرف دیکھنے والے میں ضروری ہے، جس کی طرف دیکھا ہے اس کی شہوت کا اعتبار نہیں ہے۔
*شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو۔
*عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔
*جس کو دیکھا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔
*بعینہ شرم گاہ کے اندرونی حصہ کو دیکھا ہو، اگر اس کا عکس پانی میں یا آئینہ میں دیکھاتو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
*ایک اور اہم شرط  چھونے اور دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مشترک  یہ  ہے کہ  شہوت اسی  کے لیے پیدا ہوئی ہو یعنی شہوت کا ہدف وہی مرد یا عورت ہو، اگر شہوت پہلے سے تھی اور اسی حالت میں اس نے صنفِ مخالف کو ہاتھ لگایا یا اس کی شرم گاہ کو دیکھا  اور اس سے شہوت میں کوئی اضافہ نہیں  ہوا تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
حاصل یہ ہے کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے حنفیہ کے نزدیک مندرجہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اگر یہ شرطیں نہیں  پائی جائیں گی  تو  حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
اب اگر ان شرائط پر غور کیا جائے تو  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  احناف مصاہرت کے باب میں زیادہ  محتاط ہیں؛ تاکہ فتنہ وفساد برپا نہ ہو اور معاشرہ پاک وصاف ہو، عام طور پر روز مرہ کے جن مسائل کا حوالہ دے کر مذہبِ حنفی سے عدول کرنے کا کہا جاتا ہےتو اکثر و بیشتران میں یہ تمام  شرائط پوری نہیں ہوتیں، اور  جہاں حرمتِ مصاہرت کی شرائط پوری ہوجاتی ہیں  تویہ عام طور پر  وہاں ہوتا ہے جہاں  مرد وعورت کا اختلاط اور انتہائی درجہ کا بے تکلفانہ ماحول ہو، اور ایسی مغربی تہذیب سے متاثرہ افراد کی خود ساختہ ضرورت  کی شرعاً  کوئی حیثیت بھی نہیں، چہ جائے کہ اسے  ضرورتِ شدیدہ یا اضطرار کا درجہ دیا جائے اور اس کے لیے رخصتیں تلاش کی جائیں۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ حرمتِ مصاہرت کے باب میں   پر مذہبِ غیر پر فتوی دینا جائز نہیں ہے، خواہ کسی بھی سبب سے حرمت ثابت ہو، اور  نکاح سے پہلے حرمت ثابت ہویا  نکاح کے بعد ہو،  بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ علماءِ کرام ومفتیانِ کرام عوام الناس کے سامنے اس مسئلہ کو اجاگر کریں  اور انہیں اسلامی تہذیب سے آشنا کریں، اور   اس بے حیائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کریں؛ تاکہ معاشرہ ان برائیوں سے پاک صاف ہو-

1- ︎لما في القرآن الكريم: سورة النساء، آيت نمبر(٢٢)…
{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا}…
2- ︎وفيه أيضا:سورة الإسراء، آيت نمبر(٣٢)…
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا}….
3- وفي التفسیر المنیر: (٦٥٣/٢)سورة النساء، آيت نمبر(٢٢)،ط:دار الفكر….
الراجح أن يكون المراد بالنكاح في الآية الوطء؛ لأن النكاح حقيقة في الوطء مجاز في العقد، والحمل على الحقيقه أولى، حتى يقوم الدليل على الحمل على المجاز ، وإذا كان المراد به الوطء فلا فرق بين الوطء الحلال والوطء الحرام….الخ
4- وفي مصنف ابن أبي شيبة: (٥٨/٦) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته،
رقم الحديث:16478، ط: الفاروق الحديثةللطباعةوالنشر…
"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»”…
5- وفي مصنف عبد الرزاق الصنعانی: (١٣٧/٦)  کتاب الطلاق، باب الرجل یزنی بأخت امرأتہ، رقم الحديث
:13562، ط:دارالتاصيل…
"عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ” لا أرى ذلك، ولايصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها”…
6- وفيه أيضا: (١٣٦/٦)کتاب الطلاق، باب الرجل یزنی بأم امرأتہ وإبنتها وأختها، رقم الحديث :13554، ط:دارالتاصيل…
"عن قتادة، عن عمران بن حصين في «الذي يزني بأم امرأته، قد حرمتا عليه جميعاً”…
7- وفي مصنف ابن أبي شيبة: (٢٣٥/٦) کتاب النکاح،باب  ما قالوا في الرجل يقبل المرأة، تحل له ابنتها،الخ،
رقم الحديث:17542، ط: الفاروق الحديثةللطباعةوالنشر…
8- وفي المبسوط للسرخسی: (4/ 207) کتاب النکاح، ط: دارالمعرفہ، بیروت..
” عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: «إذا قبلها أو لمسها أو نظر إلى فرجها حرمت عليه إبنتها”…
"فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، وعند الشافعي – رحمه الله تعالى – لاتثبت الحرمة بالتقبيل والمس عن شهوة أصلاً في الملك أو في غير الملك حتى إنه لو قبل أمته، ثم أراد أن يتزوج ابنتها عنده يجوز. وكذلك لو تزوج امرأة وقبلها بشهوة، ثم ماتت عنده يجوز له أن يتزوج ابنتها بناءً على أصله أن حرمة المصاهرة تثبت بما يؤثر في إثبات النسب والعدة، وليس للمس والتقبيل عن شهوة تأثير في إثبات النسب والعدة، فكذلك في إثبات الحرمة وقاس بالنكاح الفاسد، فإن التقبيل والمس فيه لا يجعل كالدخول في إيجاب المهر والعدة، وكذلك في إيجاب الحل للزوج الأول، فكذا هنا، ولكنا نستدل بآثار الصحابة – رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر – رضي الله عنه – أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق – رحمه الله تعالى – قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء، فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعاً يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحساناً، وفي القياس لاتثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي – رحمهما الله تعالى – لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها. ألا ترى أنه لا يفسد به الصوم، وإن اتصل به الإنزال، ولأن النظر لو كان موجبا للحرمة لاستوى فيه النظر إلى الفرج وغيره كالمس عن شهوة، ولكنا تركنا القياس بحديث أم هانئ – رضي الله تعالى عنها – أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وعن عمر – رضي الله تعالى عنه – أنه جرد جارية، ثم نظر إليها، ثم استوهبها منه بعض بنيه، فقال: أما إنها لا تحل لك، وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها»، ثم النظر إلى الفرج بشهوة نوع استمتاع؛ لأن النظر إلى المحل إما لجمال المحل أو للاستمتاع، وليس في ذلك الموضع جمال ليكون النظر لمعنى الجمال فعرفنا أنه نوع استمتاع كالمس بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ولأن النظر إلى الفرج لا يحل إلا في الملك بمنزلة المس عن شهوة بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ثم معنى الشهوة المعتبرة في المس والنظر أن تنتشر به الآلة أو يزداد انتشارها، فأما مجرد الاشتهاء بالقلب غير معتبرا. ألا ترى أن هذا القدر يكون من الشيخ الكبير الذي لا شهوة له، والنظر إلى الفرج الذي تتعلق به الحرمة هو النظر إلى الفرج الداخل دون الخارج، وإنما يكون ذلك إذا كانت متكئة أما إذا كانت قاعدة مستوية أو قائمة لا تثبت الحرمة بالنظر”…الخ-
9- وفي فتح القدیرللكمال ابن الهمام: (٣/ ٢١٠) کتاب النکاح، فصل في بیان المحرمات، ط: دار الكتب العلمية…
(ومن زنى بإمرأةحرمتعليهأمهاوبنتها)…..وبقولنا قال مالك في رواية وأحمد خلافاً للشافعي ومالك في أخرى، وقولنا قول عمر وابن مسعود وابن عباس في الأصح وعمران بن الحصين وجابر وأبيّ وعائشة وجمهور التابعين كالبصري والشعبي والنخعي والأوزاعي وطاوس وعطاء ومجاهد وسعيد بن المسيب وسليمان بن يسار وحماد والثوري وإسحاق بن راهويه…الخ-
10- وفي الشامية: (٤/ ٩٩،١٠٠)، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: دار عالم الكتب…
(قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن…الخ-
11- وفي البحر الرائق:(٣/ ١٧٤،١٧٤)، کتاب النکاح،فصل فی المحرمات، ط:دارالکتب العلمية…
"(قوله: والزنا واللمس والنظر بشهوة يوجب حرمة المصاهرة) وقال الشافعي الزنا لا يوجب حرمة المصاهرة؛ لأنها نعمة فلا تنال بالمحظور، ولنا: أن الوطء سبب الجزئية بواسطة الولد حتى يضاف إلى كل واحد منهما كملا فيصير أصولها وفروعها كأصوله وفروعه، وكذلك على العكس والاستمتاع بالجزء حرام إلا في موضع الضرورة وهي الموطوءة والوطء محرم من حيث إنه سبب الولد لا من حيث إنه زنا واللمس والنظر سبب داع إلى الوطء فيقام مقامه في موضع الاحتياط كذا في الهداية ولم يستدل بقوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] كما فعل الشارحون لما قدمنا أنه لا يصلح الاستدلال به، أراد بالزنا الوطء الحرام، وإنما قيد به؛ لأنه محل الخلاف، أما لو وطئ المنكوحة نكاحا فاسدا أو المشتراة فاسدا أو الجارية المشتركة أو المكاتبة أو المظاهرة منها أو الأمة المجوسية أو زوجته الحائض أو النفساء أو كان محرما أو صائما فإنه يثبت حرمة المصاهرة اتفاقا وبه علم أن الاعتبار لعين الوطء لا لكونه حلالا أو حراما وليفيد أنه لا بد أن تكون المرأة حية؛ لأنه لو وطئ الميتة فإنه لا تثبت حرمة المصاهرة كما في الخانية”…الخ-
12- وفي الشامية:(٤/ ١٠٤)، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: دار عالم الكتب…
"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة.
(قوله: الصحيح) احتراز عن النكاح الفاسد، فإنه لا يوجب بمجرده حرمة المصاهرة بل بالوطء أو ما يقوم مقامه من المس بشهوة والنظر بشهوة؛ لأن الإضافة لا تثبت إلا بالعقد الصحيح. بحر:”….الخ-
13-وفیها ایضاً:(١٠٧،١٠٨،١٠٩/٤)، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: دار عالم الكتب…
"(و) حرم أيضاً بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة.(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقاً والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره….
(قوله: بشهوة) أي ولو من أحدهما كما سيأتي (قوله: ولو لشعر على الرأس) خرج به المسترسل، وظاهر ما في الخانية ترجيح أن مس الشعر غير محرم وجزم في المحيط بخلافه ورجحه في البحر، وفصل في الخلاصة فخص التحريم بما على الرأس دون المسترسل وجزم به في الجوهرة وجعله في النهر محمل القولين وهو ظاهر فلذا جزم به في الشارح (قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، ۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ. (قوله: وناظرة) أي بشهوة (قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر. (قوله: المدور الداخل) اختاره في الهداية وصححه في المحيط والذخيرة: وفي الخانية وعليه الفتوى وفي الفتح، وهو ظاهر الرواية لأن هذا حكم تعلق بالفرج، والداخل فرج من كل وجه، والخارج فرج من وجه والاحتراز عن الخارج متعذر، فسقط اعتباره، ولا يتحقق ذلك إلا إذا كانت متكئة بحر فلو كانت قائمة أو جالسة غير مستندة لا تثبت الحرمة إسماعيل وقيل: تثبت بالنظر إلى منابت الشعر وقيل إلى الشق وصححه في الخلاصة بحر (قوله: أو ماء هي فيه) احتراز عما إذا كانت فوق الماء فرآه من الماء كما يأتي (قوله: وفروعهن) بالرفع عطفا على أصل مزنيته، وفيه تغليب المؤنث على الذكر بالنسبة إلى قوله وناظرة إلى ذكره (قوله: مطلقا) يرجع إلى الأصول والفروع أي، وإن علون، وإن سفلن ط (قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لا تحرم عليه. ا ه-وكذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لا تحرم.
قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها لما في الفيض لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جارية مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا. (قوله: وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجوداقبلهما. قوله: (وبه يفتى)…الخ-
والله أعلم بالصواب …..

(از : مفتی محمد افضل ظہوری)

Share it :
innov8ive.lab@gmail.com
innov8ive.lab@gmail.com

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Popular Categories

Category 01

Category 01

Category 01

Category 01

Category 01

Category 01

Ask a Mufti Online

Get clear, reliable answers to your Shariʿah questions from qualified scholars.

Drop Your Question Here!

Newsletter

Get free tips and resources right in your inbox, along with 10,000+ others

Latest Post

کیا اللہ کے ذکر سے شہوانی خیالات آنا شرک ہے؟ | OCD اور وسوسے کا حکم
کیا اللہ کے ذکر سے شہوانی/نامناسب خیالات آنا شرک ہے؟ | OCD اور وسوسے کا حکم
ستمبر 29, 2025
ایک مسلمان دعا میں ہاتھ اٹھائے ہوئے، اللہ کے سامنے گڑگڑا رہا ہے لیکن پھر بھی کچھ دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟
اللہ تعالی سے ناممکن کا چیز مانگنا۔ کیا ہر دعا قبول ہوتی ہے؟
ستمبر 29, 2025
کیا حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کسی اور مسلک کے فتوی پر عمل کرسکتا ہے؟
کس طرح دیکھنے اور چھونے سے عورت سے حرمت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے؟
حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کا کسی اور مسلک پر عمل کرنا
ستمبر 21, 2025
کیا گستاخانہ /کفریہ الفاظ کے نقل کرنے سے انسان خود کافر ہوجاتا ہے؟
کیا گستاخانہ /کفریہ الفاظ کے نقل کرنے سے انسان خود کافر ہوجاتا ہے؟
ستمبر 12, 2025

Get In Touch

Newsletter

Subscription Form

Latest Posts

کیا اللہ کے ذکر سے شہوانی خیالات آنا شرک ہے؟ | OCD اور وسوسے کا حکم

کیا اللہ کے ذکر سے شہوانی/نامناسب خیالات آنا شرک ہے؟ | OCD اور وسوسے کا حکم

ستمبر 29, 2025
Read More »
ایک مسلمان دعا میں ہاتھ اٹھائے ہوئے، اللہ کے سامنے گڑگڑا رہا ہے لیکن پھر بھی کچھ دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟

اللہ تعالی سے ناممکن کا چیز مانگنا۔ کیا ہر دعا قبول ہوتی ہے؟

ستمبر 29, 2025
Read More »
کیا حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کسی اور مسلک کے فتوی پر عمل کرسکتا ہے؟
کس طرح دیکھنے اور چھونے سے عورت سے حرمت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے؟

حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کا کسی اور مسلک پر عمل کرنا

ستمبر 21, 2025
Read More »

Quick Menu

  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam

Follow Us

Facebook Instagram Whatsapp Envelope Youtube

contact

  • deenalfurqan@gmail.com

© Copyright, deenalfarqan.com. All rights reserved.