Facebook Instagram Whatsapp Youtube Envelope
  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • Terms & Conditions
  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • Terms & Conditions
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
Menu
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
Change A Life
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
  • Al-Furqan Academy
  • Ask Mufti
  • Change A Life
  • Guidance of Islam
حلالہ (نکاحِ تحلیل), نکاح و طلاق

اسلام میں حلالہ: شرعی حیثیت، احکام، حکمتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ

  • نومبر 7, 2025
  • innov8ive.lab@gmail.com
  • No Responses
  • نومبر 7, 2025
  • innov8ive.lab@gmail.com

اسلام میں حلالہ: شرعی حیثیت، احکام، حکمتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ

Find What You’re Looking For

    حلالہ کا شرعی حکم – اسلام میں حلالہ کی حقیقت، شرائط اور غلط فہمیاں، مروجہ طریقہ حلالہ کا حکم، طلاق کی شرط پر شادی کرنا، حلالہ کا صحیح طریقہ
    Read in English
    اردو میں پڑھیں

    حلالہ: شرعی احکام، حکمتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ

    طلاق اسلامی شریعت میں ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر مشروع ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ” (اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے)۔  مستدرک حاکم الطلاق حدیث:2794

    جب مرد اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے تین طلاقیں دے دیتا ہے، تو شریعت نے اس کے بعد ہمیشہ کی جدائی کا حکم دیا ہے مگر صرف ایک صورت ہے جو اگر پیش آجائے تو وہ دونوں نکاح جدید کرکے دوبارہ میاں بیوی بن کر ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اسی ایک صورت کو حلالہ کہتے ہیں۔

    اس مضمون میں حلالہ کے موضوع پر قرآن و حدیث، فقہی احکام، اور علمائے کرام کی تشریحات کی روشنی میں تفصیلی بحث پیش کی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

    حلالہ کی تعریف اور لغوی معنی

    "حلالہ” عربی زبان کا لفظ ہے جو "حِلّ” سے مشتق ہے، جس کے معنی حلال کرنا یا جائز بنانا ہیں۔

    حلالہ کوئی شریعت کی قائم کردہ اصطلاح نہیں، بلکہ یہ عرف عام میں استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ اب اگر وہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لے اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کر لے، پھر اتفاقاً یا موت کی صورت میں یہ دوسرا نکاح ختم ہو جائے، تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جاتی ہے۔

    حلالہ کا ثبوت:

    قرآن کریم میں تیسری طلاق کے بعد کا حکم

    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا:
    "فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ” (البقرة: 230)
    ترجمہ: اگر ایسا ہوا کہ ایک شخص نے (دو طلاقوں کے بعد رجوع نہ کیا اور تیسرے مہینے تیسری) طلاق دے دی تو پھر (دونوں میں قطعی جدائی ہوگئی) اور اب شوہر کے لیے وہ عورت حلال نہ ہوگی جب تک کہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں نہ آجائے۔ پھر اگر ایسا ہوا کہ دوسرا مرد (شادی و ازدواجی تعلقات کے بعد خود) طلاق دے دے (اور پہلا شوہر اور عورت دوبارہ شادی کرنا چاہیں) تو ایک دوسرے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ اس میں ان کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ بشرطیکہ دونوں کو توقع ہو کہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں پر قائم رہ سکیں گے۔ اور (دیکھو) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیاں ہیں، جنہیں وہ اہل علم کے لیے واضح کردیتا ہے۔

    فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ والی آیت کی تفسیر​

    علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب مرد تیسری طلاق دے دے تو عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے، اور یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے مرد سے حقیقی نکاح نہ کر لے اور ازدواجی تعلقات نہ قائم ہوں۔
    (ابن کثیر – حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب)

     

    حدیث شریف میں تین طلاق کے بعد کا حکم

    حدیث رفاعہ (حضرت رفاعہ القرظی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ)

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: رِفَاعَةُ الْقُرَظِيُّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَبَتَّ طَلَاقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللهِ مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ» (صحیح البخاری: 5265، صحیح مسلم: 1433)

    ترجمہ: رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے اس سے نکاح کر لیا۔ وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یا رسول اللہ! میں رفاعہ کے نکاح میں تھی، انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں، پھر عبدالرحمن نے مجھ سے نکاح کیا، لیکن اللہ کی قسم ان کے پاس تو   صرف کپڑے کے کنارے جیسا ہے(یعنی وہ مرد نامرد ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: "شاید تم رفاعہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہو؟ نہیں(ایسے ہی نہیں لوٹ سکتی )، جب تک تم اس کےشہد کو نہ چکھ لو اور وہ تمہارے شہد کو نہ چکھ لے۔ (یعنی  ہمبستری کر کےایک دوسرے کا مزہ نہ چکھ لو)

    حدیث کی تشریح: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نکاح کافی نہیں بلکہ حقیقی ازدواجی تعلقات ضروری ہیں۔

    حلالہ کے بارے میں شریعت اسلامی کے احکامات :

    حلالہ کی دو قسمیں ہیں:

    1. حلالہ حقیقی (جائز): جب کوئی مرد کسی طلاق یافتہ عورت سے محض نکاح کی نیت سے نکاح کرے، حلالہ کا ارادہ نہ ہو، اور اتفاقاً (یاکسی عذر کی بناء پر )بعد میں طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے، تو اس عورت کا سابقہ شوہر سے نئے سرے سے نکاح حلال ہوجاتا ہے ۔ یہی حلالہ ہے جس کی اجازت ہے ۔

    حلالہ تحایلی (ناجائز): جب پہلے سے یہ طے ہو کہ نکاح حلالہ کی غرض سے کیا جا رہا ہے اور طلاق کی شرط پہلے سے لگی ہو۔ یہ صورت حرام اور مکروہ تحریمی ہے۔اور ایسے حلالہ کرنے اور کروانے والے رسول صادقﷺ کے فرمان کی رو سے ملعون ہیں۔ 

    حدیث پاک اور شریعت میں جس حلالے کا ذکر آیا ہے وہ ہرگز حلالہ تحایلی نہیں ہے ۔کیونکہ یہ تو واضح طور پر ملعون عمل ہے۔

    نکاح تحلیل کے متعلق احناف و شوافع و مالکیہ کا موقف:

    علامہ ابن عابدین شامی (صاحب رد المحتار) اورامام نووی (المجموع شرح المہذب)اورامام مالک (المدونۃ الکبریٰ میں)فرماتے ہیں: اگر اس شرط کے ساتھ نکاح کیا کہ دخول کے بعد طلاق دے گا تاکہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے، تو نکاح صحیح ہے لیکن مکروہ تحریمی کے ساتھ۔ اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہے۔

    یعنی نکاح تو ہوجائے اور بعد از عدت عورت کا پہلے شوہر سے نکاح بھی جائز ہوجائے گا لیکن یہ تحلیل کا عمل جو انہوں نے  کیا وہ ملعون ہے۔ جس کا سخت گناہ ہے۔

    حنابلہ کا موقف:

    امام ابن قدامہ (المغنی)فرماتے ہیں: اگر حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کیا یا ایک یا دونوں نے یہ نیت کی تویہ  نکاح ہی باطل ہے۔

    یعنی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے مطابق یہ  نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا، یعنی وہ عورت دوسرے شوہر کی بیوی ہی نہیں بنے گی لہٰذا بعد طلا ق کے بھی پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی۔ ایسا امام احمدبن حنبل اور ان کے متبعین کا مسلک ہے۔

    حلالہ کے لیے ضروری شرائط:

    دوسرا نکاح حقیقی ہو: محض ایک رسمی نکاح یا دکھاوے کا نکاح کافی نہیں۔ یہ نکاح تمام شرعی تقاضوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔

    ازدواجی تعلقات کا قیام: حدیث پاک کی رو سے حقیقی جماع ضروری ہے، اگرچہ مکمل جماع نہ ہوا ہو یعنی انزال وغیرہ شرط نہیں لیکن دخول تو شرط ہے۔ محض نکاح اور خلوت کافی نہیں۔

    دوسرے نکاح کا اختتام: دوسرا شوہر طلاق دے یا اس کا انتقال ہو جائے۔

    عدت کا گزرنا: عورت کو دوسرے شوہر کی عدت مکمل کرنی ہوگی۔

    حلالہ کی نیت کا نہ ہونا: یہ سب سے اہم شرط ہے۔ دوسرے شوہر کی نیت حلالہ کرانے کی نہیں ہونی چاہیے۔اگر ایسا کیا تو نکاح اور تحلیل تو ہوجائے گی لیکن ایسے کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔

    حلالہ کی عقلی توجیہات اور اس کی حکمتیں:

    یہ حکم کوئی  عقوبت  اور تعذیب (یعنی سزا دینے کی کوئی شکل )نہیں بلکہ اس میں گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں۔یہ بندے پر اللہ کا انعام و احسان ہے کہ وہ ایسے مبغوض کام (بلاضرورتِ شرعی طلاق دینے)سے بچے۔ جیسے اللہ  رب العزت کی ذات ماوراء  العقول ہے ،ایسے ہی اس کے احکامات کی حکمتوں تک بھی ہماری محدود سی عقل نہیں پہنچ سکتی لیکن اس کے باوجود انسانی بساط تک جو حکمتیں فقہائے کرام اور علمائے امت نے بیان کی ہیں، آئیے ان  کو سمجھتے ہیں:

    ۱. طلاق کو معمولی سمجھنے اور طلاق دینے کو مشکل بنانا:

    امام قرطبی (صاحب الجامع لاحکام القرآن) فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اس لیے مقرر کیا تاکہ شوہروں کو طلاق میں جلدبازی سے روکا جائے۔ کیونکہ جب مرد جان لے کہ تین طلاقیں دینے کے بعد بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے، تو یہ بات اسے تیسری طلاق دینے سے روکے گی۔
    علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف ہے کہ اس نے یہ سخت رکاوٹ رکھ دی تاکہ مرد طلاق کو معمولی نہ سمجھ لیں۔

    ۲. نکاح کی اہمیت کا ادراک:

    مفتی محمد شفیع (صاحب معارف القرآن) فرماتے ہیں: اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ مرد کو احساس ہو کہ نکاح کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک مقدس اور مضبوط رشتہ ہے۔ جب اسے معلوم ہوگا کہ طلاق دینے کے بعد واپسی کتنی مشکل ہے تو وہ اس رشتے کی قدر کرے گا۔

    ۳. معاشرتی استحکام:

    یہ حکم خاندان کی بنیاد کو محفوظ رکھتا ہے اور طلاق میں جلدبازی کی وجہ سے اس کے بکھرنے سے روکتا ہے۔ یہ ایک مضبوط دیوار ہے جو معاشرے کو خاندانی انتشار سے بچاتی ہے۔

    ۴. جذباتی فیصلوں سے تحفظ:

    انسان جب غصے یا جذبات کی رو میں بہہ کر تین طلاقیں دے دیتا ہے تو بعد میں پشیمان ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ قانون اس لیے رکھا کہ مرد احساس کرے کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ یہ سزا دراصل تربیت ہے، تعذیب نہیں۔

    ۵.نفسیاتی تربیت:

    علامہ ابن القیم (صاجب زاد المعاد) فرماتے ہیں: یہ حکم شوہر کو صبر اور برداشت سکھاتا ہے، اور اسے مجبور کرتا ہے کہ طلاق دینے سے پہلے ہزار بار سوچے۔ یہ ایک عظیم نفسیاتی علاج ہے۔

    ۶. عورت کی عزت کا تحفظ:

    اس حکم میں عورت کی عزت کا تحفظ ہے، تاکہ وہ مرد کے ہاتھ میں کھلونا نہ بنے جسے وہ جب چاہے طلاق دے اور جب چاہے واپس لے آئے۔

    ۷.اللہ کی حدود کی پاسداری:

    یہ حکم لوگوں کو سکھاتا ہے کہ اللہ کی حدیں ہیں جن سے تجاوز جائز نہیں۔ جس نے ان سے تجاوز کیا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔

    کیا یہ عورت پر ظلم نہیں؟ کہ طلاق مرد نے دی اور دوسری شادی عورت پر لازم ہو

    بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مرد نے غلطی (تین طلاقیں) کی ہے تو اس کی سزا عورت کو کیوں بھگتنی پڑے؟ کیا یہ عورت پر ظلم نہیں کہ اسے کسی اور مرد سے  نکاح بلکہ جماع تک کرنا پڑے؟ آئیے اس کا شرعی اور عقلی جواب سمجھیں۔

    پہلا نکتہ: حلالہ عورت کے لیے سزا نہیں، بلکہ اختیار ہے:

    یہ سمجھنا غلط ہے کہ یہ حکم عورت کی سزا ہے۔ دراصل یہ عورت کو ایک نیا اختیار دیتا ہے۔ اگر عورت چاہے تو پہلے شوہر کی طرف لوٹ سکتی ہے (بشرطیکہ   دوسرا نکاح اور اس کا اختتام ہو)، اور اگر نہیں چاہتی تو اپنی زندگی آگے بڑھا سکتی ہے۔مفتی تقی عثمانی (تکملہ فتح الملہم)
    عورت پہلے شوہر کی طرف لوٹنے پر مجبور نہیں۔ اسے مکمل اختیار ہے۔ اگر وہ دوسرے شوہر کے ساتھ رہنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے، اور اگر دوسرے نکاح کے اختتام کے بعد پہلے کی طرف لوٹنا چاہے تو یہ بھی اس کا حق ہے۔

    دوسرا نکتہ: اگر یہ سزا ہی ہے تو دونوں پر ہے، صرف عورت پر نہیں:

    یہ حکم دونوں میاں بیوی کی سزا ہے۔ شوہر کو اپنی بیوی سے محروم ہونے کی سزا ملتی ہے، اور بیوی کو بھی اپنے شوہر سے جدائی کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن شریعت نے واپسی کا دروازہ کھلا رکھا ہے اگر دونوں چاہیں، بشرطیکہ دونوں ایک ایسے تجربے سے گزریں جو انہیں ازدواجی زندگی کی قدر سکھائے۔

    تیسرا نکتہ: عورت کو مکمل طور پر آزادی حاصل ہے:

    عورت کو دوسرے نکاح پر مجبور کرنا جائز نہیں، بلکہ اس کی رضامندی اور اختیار ضروری ہے۔ اگر وہ راضی نہیں تو نکاح نہیں ہوگا، اور اگر راضی ہے تو وہ 
    اپنی مرضی سے ہے، مجبور نہیں۔ علامہ ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی)
    اسلام میں کسی عورت کو کسی بھی نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر عورت دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتی تو کوئی اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ یہ مکمل طور پر اس کا اپنا فیصلہ ہے۔مفتی محمد شفیع (معارف القرآن)

    چوتھا نکتہ: مرد کو زیادہ سخت سزاہے:

    دراصل اس حکم میں مرد کی سزا زیادہ سخت ہے، کیونکہ اسے اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ دیکھنے کا غم اٹھانا پڑتا ہے، جبکہ یہ سب اس کی اپنی غلطی کا نتیجہ  ہے۔ یہ اس کے لیے سخت ترین سبق ہے۔علامہ ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن)
    یہ حکم مرد کے لیے عورت سے زیادہ سخت سزا ہے، کیونکہ اسی نے اپنی جلدبازی اور جہالت سے خود کو اس مصیبت میں ڈالا، جبکہ عورت کو ہر چیز میں اختیار ہے۔شیخ عبدالعزیز بن باز

    پانچواں نکتہ: دوسرا نکاح حقیقی ہوتا ہے:

    ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دوسرا نکاح محض ایک رسمی عمل نہیں، بلکہ یہ تمام شرائط اور حقوق کے ساتھ ایک حقیقی مکمل نکاح ہے۔ اگر عورت اس پر راضی ہو تو وہ دوسرے مرد کے ساتھ نئی زندگی بناتی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ اسی کے ساتھ رہے اور خوش رہے۔ یہ معاملہ ویسا نہیں جیسا  لوگ سمجھتے ہیں اور آج کل رواج بھی چل پڑا ہے کہ یہ محض واپسی کا ذریعہ ہے۔

    چھٹا نکتہ: عورت کا مقام و مرتبہ:

    اسلام نے عورت کو اتنا بلند مقام دیا ہے کہ اس کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں۔ حلالہ کے معاملے میں بھی عورت ہر قدم پر فیصلہ کرنے والی ہے۔ وہ چاہے تو دوسرا نکاح کرے، چاہے تو نہ کرے۔ چاہے تو دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، چاہے تو اس سے علیحدہ ہو کر پہلے کی طرف لوٹے۔علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاللہ 
    اگر غور کریں تو اس حکم میں عورت کی حفاظت ہی ہے۔ کیونکہ اگر یہ حکم نہ ہوتا تو مرد بار بار طلاق دیتا اور واپس لے لیتا، اور عورت کھلونا بن جاتی۔ لیکن اس حکم نے مرد کو طلاق سے ڈرایا اور عورت کو عزت دی۔ مولانا اشرف علی تھانوی (بیان القرآن)

    نکاحِ تحلیل یعنی حلالہ کی ممانعت اور اس کی مذموم صورتیں:

    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:"لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ” (سنن الترمذی، سنن ابی داؤد) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔
     
    علماء کرام نے وضاحت کی ہے کہ یہ لعنت اس شخص پر ہے جو حلالہ کی نیت سے نکاح کرے، نہ کہ اس پر جو حقیقی نکاح کی نیت سے نکاح کرے۔

    عاریتی بکرے کی تشبیہ:

    حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے:"قالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏”‏ أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏”‏ هُوَ الْمُحَلِّلُ لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ ‏” ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا میں تمہیں  عاریتی بکرے کے بارے میں نہ بتاوں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا: ضرور(بتلائیے) اے اللہ کے رسول! آپ ﷺفرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے۔اللہ کی لعنت ہے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائےاس پر۔

    غلط حلالہ کی مذموم صورتیں:

    ۱. پہلے سے طے شدہ حلالہ
    جب پہلے شوہر، دوسرے مرد، اور عورت میں پہلے سے یہ طے ہو کہ نکاح حلالہ کے لیے ہو رہا ہے اور رسمی طور پر ہوگا۔
    حکم: یہ صورت حرام اور مکروہ تحریمی ہے۔ احناف کے نزدیک نکاح صحیح لیکن مکروہ، جبکہ حنابلہ کے نزدیک باطل۔
    ۲. مشروط حلالہ
    جب نکاح میں یہ شرط لگائی جائے کہ "میں تم سے نکاح کروں گا بشرطیکہ دخول کے بعد طلاق دے دوں۔
    امام ابن قیم فرماتے ہیں:یہ حرام حیلوں میں سے بدترین قسم ہے، اور یہ اللہ کی حدود کے ساتھ کھیل ہے۔
     
    ۳.معاوضے پر حلالہ
    جب کوئی شخص پیسے لے کر حلالہ کا نکاح کرے۔
    فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: جس نے حلالہ پر معاوضہ لیا وہ گنہگار ہے، اور معاوضہ حرام ہے۔
     
    ۴.نکاح بلاجماع
    جب صرف نکاح پڑھا جائے لیکن ازدواجی تعلقات قائم نہ کیے جائیں، یا محض دکھاوے کے لیے کچھ دن رکھا جائے۔
    حکم: یہ نکاح شرعاً ناکافی ہے اور اس سے پہلے شوہر سے نکاح حلال نہیں ہوگا۔
    حقیقی شرعی حلالہ کے مراحل :
     ( مطلب یہ ایک ممکنہ صورت ہے،نہ کہ معاذ اللہ حلالہ کروانے کی ترکیب )اگر  تین طلاقوں کا واقعہ ہو جائے تو صحیح شرعی طریقہ سے حلالہ یوں ہوسکتاہے۔  
    پہلے شوہر سے فورًا علیحدہ ہوجائے، کیونکہ جس طرح وہ اللہ کے حکم کے مطابق ساتھ تھے اسی کےحکم کے مطابق اب وہ اجنبی ہوچکے ہیں۔ 
    مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور توبہ کریں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔
    عورت پر کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔ اگر وہ چاہے تو دوسرا نکاح کرے، ورنہ اپنی زندگی آگے بڑھائے۔
    اگر عورت دوسرا نکاح کرنے کا فیصلہ کرے تو وہ کسی ایسے شخص سے کرے جواسے اچھالگے۔ اور اس کے لئے بہتر شوہر ثابت ہوسکتا ہ

    دوسرا نکاح تمام شرعی تقاضوں کے ساتھ  حقیقتًا ہو۔محض رسمی غیر شرعی نہ ہو۔
    اگر دوسرا نکاح اتفاقاً ختم ہو جائے (طلاق یا موت سے) تو عورت عدت گزارے۔
    عدت کے بعد عورت کو اختیار ہے کہ وہ پہلے شوہر کی طرف لوٹے یا نہیں۔

    حلالہ سے متعلق عمومی سوالات و جوابات

    ۱: کیا ٹیسٹ ٹیوب بیبی کی صورت میں حلالہ ہو سکتا ہے؟

    جواب: نہیں، کیونکہ حقیقی جماع ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "ذوق العسیلۃ” (شہد چکھنا) کی تعبیر استعمال کی ہے جو حقیقی جماع پر دلالت کرتی ہے۔

    2: اگر دوسرا شوہر نامرد ہو تو کیا صرف شوہر کے ساتھ تنہائی سے بغیر ہمبستری کیے حلالہ ہوجائے گا؟

    جواب: رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ کے واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ جب تک حقیقی جماع نہیں ہوگا، پہلی بیوی حلال نہیں ہوگی۔ البتہ اس میں مکمل جماع جس میں دونوں کو بھرپور مزہ (Orgasm) آئے، یہ شرط نہیں ہے بلکہ صرف چکھنا (جیساکہ حدیث شریف میں تعبیر ہے) یعنی دونوں کو دخول کے ساتھ معمولی سا مزہ آجانا بھی کافی ہے۔ البتہ صرف حلالہ کی غرض سے ایسا کرنا ناجائز اور لعتنی عمل ہے۔

    کیا تین ظلاق کے بعد بغیر حلالہ کے بھی کوئی صورت ہے عورت کو ساتھ رکھنے کی؟

    جب تین طلاق ہوگئی تو قرآن کا واضح حکم ہے کہ اس کے بعد اس شوہر کے لئے حلالہ نہ ہوجانے تک یہ بیوی دوبارہ نکاح کرکے بھی حلال نہیں ہوسکتی۔

    غصے میں دی گئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں؟

    ہوش کی حالت میں یعنی جب انسان کو یہ سمجھ آرہا ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے، اگرچہ وہ غصے اور جذبات سے مغلوب ہوکر ہی بول رہا ہو لیکن وہ ہوش میں ہے تو طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی۔

    کیا ایک مجلس میں ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجاتی ہیں؟

    تین طلاقیں ایک ساتھ دینا ایک بہت گناہ والا اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی والا عمل ہے لیکن بہرحال اگر کسی نے یہ کردیا تو ۳ طلاقیں ایک ساتھ واقع ہوجائیں گی اور رجوع کے اختیار کے بغیرعورت مرد سے لاتعلق ہوجائے گی۔

    Didn’t Get Your Query Answered? Don’t Worry! We Are Here to Answer Every Single Question.

    Ask Question

    واللہ اعلم بالصواب

    Share it :
    innov8ive.lab@gmail.com
    innov8ive.lab@gmail.com

    جواب دیں جواب منسوخ کریں

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

    Popular Categories

    Category 01

    Category 01

    Category 01

    Category 01

    Category 01

    Category 01

    Category 01

    Newsletter

    Get free tips and resources right in your inbox, along with 10,000+ others

    Latest Post

    طلاق کی دھمکی پر کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ مشروط طلاق (Conditional Divorce) کا شرعی حکم طلاق کی دھمکی، طلاقِ معلق، Conditional Divorce، فقہ حنفی میں طلاق
    شرط کے ساتھ (معلق/مشروط) طلاق دینے کا حکم
    نومبر 7, 2025
    حلالہ کا شرعی حکم – اسلام میں حلالہ کی حقیقت، شرائط اور غلط فہمیاں، مروجہ طریقہ حلالہ کا حکم، طلاق کی شرط پر شادی کرنا، حلالہ کا صحیح طریقہ
    اسلام میں حلالہ: شرعی حیثیت، احکام، حکمتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ
    نومبر 7, 2025
    سودی رقم سے خریدا گیا موبائل — شرعی حکم اور عبادات کا استعمال
    سودی رقم سے خریدی گئی چیز کا حکم
    اکتوبر 8, 2025
    کیا اللہ کے ذکر سے شہوانی خیالات آنا شرک ہے؟ | OCD اور وسوسے کا حکم
    کیا اللہ کے ذکر سے شہوانی/نامناسب خیالات آنا شرک ہے؟ | OCD اور وسوسے کا حکم
    ستمبر 29, 2025
    ایک مسلمان دعا میں ہاتھ اٹھائے ہوئے، اللہ کے سامنے گڑگڑا رہا ہے لیکن پھر بھی کچھ دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟
    اللہ تعالی سے ناممکن کا چیز مانگنا۔ کیا ہر دعا قبول ہوتی ہے؟
    ستمبر 29, 2025
    کیا حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کسی اور مسلک کے فتوی پر عمل کرسکتا ہے؟
کس طرح دیکھنے اور چھونے سے عورت سے حرمت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے؟
    حرمت مصاہرت کے مسئلہ میں حنفی کا کسی اور مسلک پر عمل کرنا
    ستمبر 21, 2025

    Get In Touch

    Newsletter

    Subscription Form

    Latest Posts

    طلاق کی دھمکی پر کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ مشروط طلاق (Conditional Divorce) کا شرعی حکم طلاق کی دھمکی، طلاقِ معلق، Conditional Divorce، فقہ حنفی میں طلاق

    شرط کے ساتھ (معلق/مشروط) طلاق دینے کا حکم

    نومبر 7, 2025
    Read More »
    حلالہ کا شرعی حکم – اسلام میں حلالہ کی حقیقت، شرائط اور غلط فہمیاں، مروجہ طریقہ حلالہ کا حکم، طلاق کی شرط پر شادی کرنا، حلالہ کا صحیح طریقہ

    اسلام میں حلالہ: شرعی حیثیت، احکام، حکمتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ

    نومبر 7, 2025
    Read More »
    سودی رقم سے خریدا گیا موبائل — شرعی حکم اور عبادات کا استعمال

    سودی رقم سے خریدی گئی چیز کا حکم

    اکتوبر 8, 2025
    Read More »

    Quick Menu

    • Al-Furqan Academy
    • Ask Mufti
    • Change A Life
    • Guidance of Islam
    • Al-Furqan Academy
    • Ask Mufti
    • Change A Life
    • Guidance of Islam

    Follow Us

    Facebook Instagram Whatsapp Envelope Youtube

    contact

    • deenalfurqan@gmail.com

    © Copyright, deenalfarqan.com. All rights reserved.